بیخود صاحب اپنے وقت میں ایک گورے کو پڑھایا کرتے تھے ، اس لحاظ سے انگریزی اچھی خاصی جانتے ہوں گے ، مگر ہم نے ان کے منہ سے کبھی کوئی انگریزی کا لفظ نہیں سنا ۔ ان کے گورے کو پڑھانے کا ایک واقعہ یاد آیا ۔
ایک دفعہ دو تین مہینے کے لئے انھیں دلی سے کہیں باہر جانا پڑ گیا ۔ شاگردوں سے انہوں نے چھٹی لے لی ۔ ایک شاگرد کا امتحان قریب آ پہنچا تھا ۔ اس نے اپنے کسی سویلین دوست سے کہہ کر اس کے دفتر کے ایک کلرک کو لگا لیا ۔ کلرک سے اس نے پوچھا پڑھانے کا کیا لو گے ؟ اس نے اپنی دانست میں بہت بڑھا کر پندرہ روپے ماہوار بتائے ۔ اس زمانے میں کلرک کو پچیس روپے تنخواہ ملتی تھی ۔ درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا اور تین مہینے میں وہ گورا فارغ التحصیل ہو گیا ۔ اس نے ماسٹر کو پندرہ روپے مہینہ بھی دیا اور کچھ انعام بھی اور بولا :
" ہمارا پہلا منشی پچاس روپے لیتا تھا اور اس نے ہمیں ایک سال میں کچھ بھی نہیں پڑھایا "
بیخود صاحب جب لوٹ کر آئے تو دیکھا کہ شاگرد تو فارغ التحصیل ہو چکا ہے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ؟ معلوم ہوا کہ فلاں فلاں شخص نے کورس ختم کرا دیا ۔ بیخود صاحب اسے کچھ جانتے تھے ۔ اس کے پاس پہنچے اور بولے :
" میاں اب کیا لو گے ؟ "
ان لوگوں کو کہیں اس طرح پڑھایا جاتا ہے ؟
تمھیں اپنے شہر کے اس جراح کا قصہ یاد نہیں جو قصائی کے لڑکے کا علاج کیا کرتا تھا ؟
پوچھا ! کیا ؟
فرمایا : " ایک قصائی کا لڑکا تھا ، اس کے پاؤں میں ہڈی کی کرچ چبھ گئی اور زخم پک گیا ، قصائی اسے لے کر جراح کے پاس پہنچا ، جراح روزانہ اس کی مرہم پٹی کرتا اور معاوضہ میں آدھ سیر گوشت پاتا ۔ یہ سلسلہ دنوں چلتا رہا ۔ ایک دن جراح کسی وجہ سے دکان پر نہ جا سکا ۔ اس کے لڑکے نے تمام پھوڑے پھنسی والوں کی دیکھ بھال کی ۔
شام کو باپ نے پوچھا :
" سب کے کام سدھ ہو گئے تھے نا ؟ "
بیٹے نے کہا :
" ہاں کام تو سب کے ٹھیک ہو گئے ، مگر وہ جو قصائی کا لڑکا آتا ہے اس کے زخم سے آج ہڈی کی کرچ نکلی ، وہ میں نے نکال کر پھینک دی ۔ "
باپ نے کہا :
" ابے غضب کر دیا تو نے ! اب کیا خاک کھائے گا !
ابے وہی ہڈی تو آدھ سیر گوشت روز کھلا رہی تھی "
گنجینہ گوہر ۔۔۔۔۔۔شاہد احمد دہلوی
0 Comments